بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، غزہ پر مکمل قبضے کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب صہیونی ریاست کی اندرونی صورت حال پر نظر ڈالنے سے نیتن یاہو کی کابینہ کی نازک صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے، جیسا کہ نئے حریدی فوجی قانون کی وجہ سے مذہبی تحریکوں کے اتحاد سے علیحدگی کے بعد، کابینہ کا عملی طور پر کوئی سیاسی جواز نہیں باقی نہیں ہے اور سابق وزیر اعظم یائیر لاپید نے کابینہ کی تحلیل اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے چنانچہ قانونی طور پر نیتن یاہو کو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا پڑے گا۔ نتانیاہو کا بار بار چلایا جانے والا حربہ ان حالات میں ہمیشہ ایک اصول پر مبنی رہا ہے: ایک طرف غزہ اور خطے میں جنگ کی شدت بڑھا کر جنگی صورت حال کا دعویٰ کرنا اور سیاسی ڈھانچے کو تبدیل نہ کرنے کی ضرورت پر زور دینا، جبکہ دوسری طرف انتہا پسند گروہوں جیسے بن گویر، اسموٹریچ وغیرہ کی رضامندی حاصل کرنا تاکہ کابینہ کے ساتھ تعاون جاری رکھا جا سکے اور مخالف گروہوں کے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔
مضمون کا خلاصہ:
1۔ نتانیاہو کی حکمت عملی:
- بنیامین نتانیاہو غزہ کے مکمل قبضے اور جنگ جاری رکھنے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ 20 لاکھ فلسطینی مصنوعی بھوک میں مبتلا ہیں<۔
- داخلی بحران (کابینہ کی عدم مشروعیت ([Illegality]) کو چھپانے کے لئے جنگ کو ہوا دے رہا ہے۔
- مذہبی اور انتہا پسند جماعتوں (بن گویر، اسموٹریچ) کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش۔
2۔ بین الاقوامی ردعمل:
- فلسطین اب صرف عرب مسئلہ نہیں، بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔
- یورپی ممالک (فرانس، برطانیہ، جرمنی) میں صہیونی مخالف مظاہرے جاری ہیں اور فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
- امریکہ کا دوغلا پن: ظاہر میں امن کی بات، لیکن عملاً اسرائیل کو مکمل حمایت۔
3۔ اسرائیل کی ناکامیاں:
- 21 ماہ کے بعد بھی غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکا۔
- حماس کا خاتمہ نہیں ہؤا، نہ ہی قیدی رہا ہوئے۔ صورت حال یہ ہے کہ غاصب ریاست اب غزہ پر مکمل قبضے کے لئے کئی لاکھ فوجی تیار کر رہی ہے!
- ایرانی اور یمنی حملوں سے اسرائیلی بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ یمنی حملے جاری ہیں اور ایران نے ابھی تک جنگ بندی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
4۔ فوجی اور معاشرتی بحران:
- اسرائیلی فوج میں بڑے پیمانے پر ذہنی مسائل اور بھگوڑے فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ۔
- سابق سیکورٹی اہلکاروں کا جنگ بندی کا مطالبہ۔
5۔ ابلاغی جنگ میں ناکامی:
- صہیونیوں کا روایتی بیانیہ اور مظلومیت کی اداکاری کا سلسلہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور صہیونی جرائم پر تنقید کو اب یہود دشمنی کا عنوان دینا ممکن نہیں رہا ہے حتی کہ ٹرمپ کی ماگا تحریک کے اندر بھی صہیونیوں کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں۔
- مغربی ذرائع بھی مزید صہیونی بیانیہ پھیلانے میں ناکام ہوئے ہیں؛ روایتی صہیونی-مغربی بیانیے پر پوری دنیا میں سوال اٹھ رہے ہیں۔
- مغربی میڈیا نے غزہ کی بھوک اور 60,000 شہریوں کے قتل کو نظر انداز کیا لیکن نئی دنیا کے وسائل نے ان کی آواز دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچا دی۔
ایران کے ساتھ جنگ میں میں بھی صہیونیوں کی ناکامی
اس جنگ میں صہیونی ریاست اپنے اعلان کردہ کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی، ایرانی میزائلوں نے صہیونی ریاست کو کچل کر رکھ دیا۔ اندرون ملک اور سرحدوں پر 900 صہیونی گماشتے گرفتار ہوئے، 10000 مائیکرو ڈرونز ضبط کئے گئے، بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہؤا، کئی سو ڈرون گرائے گئے اور 5 جنگی طیارے بھی مارے گئے جن میں کم از کم اسٹیلتھ ایف 35 طیارے شامل تھے۔ سرحدوں پر چھپے ہوئے سینکڑوں غیر ملکی صہیونی گماشتے بھی گرفتار کئے گئے۔
بایں وجود، اسرائیل اپنے داخلی بحران اور عالمی دباؤ کو کم کرنے کے لیے غزہ میں تشدد بڑھا رہا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اپنے کسی بھی ہدف میں کامیاب نہیں ہؤا ہے اور غزہ پر وسیع پیمانے پر چڑھائی سے بھی وہ کچھ زیادہ حاصل نہیں کر سکے گا اور مقاومتی مجاہدین کو صہیونیوں کی تعداد کم یا زیادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور یہی نہیں، بلکہ صہیونیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو ان کے جانی نقصانات بھی تل ابیب کے لئے ناقابل برداشت ہونگے۔ عالمی برادری کو اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا تبصرہ